پاکستان میں کھیلنا ایک چیلنج ہے اور اس کیلئے کافی پرجوش ہوں، جنوبی افریقی کرکٹر

0
425
PSL

اسلام آباد یونائیٹڈ میں شامل جنوبی افریقی کرکٹر ریسی ون ڈر ڈسن کا کہنا ہے کہ پاکستان سپر لیگ 8 میں ٹیموں کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں کافی سخت مقابلہ ہوگا، ابتدائی دو میچز میں ہونے والے مقابلے نے اس کی ایک جھلک دکھا دی ہے۔

کراچی میں جیو نیوز کو انٹرویو میں تجربہ کار جنوبی افریقی کرکٹر نے کہا کہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ وہ بالآخر پاکستان سپر لیگ کھیل پا رہے ہیں کیوں کہ اس سے پہلے دو بار منتخب ہونے کے باوجود بھی وہ کسی نہ کسی وجہ سے لیگ کھیلنے سے محروم رہ گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کھیلنا ایک چیلنج ہے اور وہ اس چیلنج کے لیے کافی پُرجوش ہیں، یہاں پہلے ٹیسٹ سیریز کھیل چکے ہیں، گو کہ وہ مختلف بال کی کرکٹ تھی مگر اس سے کنڈیشنز کا اندازہ ہو گیا تھا کہ یہاں کس طرح بیٹنگ کرنی ہے۔

جنوبی افریقی کرکٹر نے کہا کہ انہیں پاکستان پسند ہے اور یہاں کے لوگ کافی مہمان نواز ہیں، پہلےکورونا وائرس سے متعلق پابندیاں تھیں لیکن اس بار ان کے پاس موقع ہے کہ وہ لوگوں سے ملاقات کر سکیں۔

ریسی ون ڈر ڈسن کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی ٹیم جارح مزاج کرکٹ کھیلتی ہے، ان کی کوشش ہوگی کہ وہ اسلام آباد کے برانڈ آف کرکٹ کے سانچے میں خود کو ڈھالیں، ٹیم کے لیے تسلسل کے ساتھ پرفارم کریں۔

ان کا کہنا ہے کہ انفرادی اہداف زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہیں، زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ اس اسکواڈ کا حصہ ہوں جو ٹائٹل جیتیں، کوشش ہو گی کہ ذمے داری کے ساتھ ٹورنامنٹ میں ایسی کارکردگی دکھائیں جس سے ٹیم کو فائدہ ہو۔

ایک سوال پر جنوبی افریقی بیٹر نے کہا کہ پی ایس ایل میں تمام ٹیمیں مضبوط ہیں، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کون سی ٹیم زیادہ اچھی ہو گی، ہر ٹیم کے پاس بہتر سے بہتر بولنگ اٹیک ہے اور اس صورتحال میں یہ لیگ بیٹرز کے لیے کافی چیلنجنگ ہو گی۔

ریسی ون ڈر ڈسن نے مزید کہا کہ وہ پی ایس ایل کو ہمیشہ فالو کرتے رہے ہیں، دیگر پلیئرز سے بھی لیگ کے بارے میں بات ہوئی اور ہر کسی نے اس کو اعلیٰ معیار کی لیگ قرار دیا، یہاں ہر ٹیم کے پاس ایسے بولرز ہیں جو تسلسل کے ساتھ 140 کی رفتار سے بولنگ کر سکتے ہیں، ٹاپ کلاس اسپنرز اور اچھے بیٹسمین بھی ہیں۔

ایک سوال پر جنوبی افریقی بیٹسمین نے کہا کہ ماضی میں ہر لیگ کی چیمپئن ٹیم کے درمیان ہونے والا چیمپئنز لیگ زبردست ٹورنامنٹ تھا، اگر ایسا ٹورنامنٹ دوبارہ ہوا تو مزہ آئے گا، دنیا بھر کی لیگز کھیل کر پلیئرز کو فائدہ ہوتا ہے مگر ہر پلیئر کی ترجیح انٹرنیشنل کرکٹ ہی ہوتی ہے کیوں کہ ہر کوئی اپنے ملک کے لیے کھیلنا چاہتا ہے، ضروری ہے کہ لیگ اور انٹرنیشنل کرکٹ میں توازن برقرار رہے۔